مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے شہیدِ قدس جنرل قاسم سلیمانی کے تیسرے یومِ شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید حاج قاسم کا شمار ان عظیم ترین ہیروز میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف ایک قوم کی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے مظلومین کی بھی خدمت کی۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ ان کو صرف سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بریگیڈ کے کمانڈر کے طور پر دیکھتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یمن میں ہونے والی استعماری مداخلت ہو، شام کی حکومت کے خاتمہ کے لیے مغرب، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی مشترکہ جدوجہد ہو، عراق میں مغربی حکومت کے قیام کے لیے یورپ، امریکہ اور عرب ریاستوں کی سرمایہ کاری اور دہشت گردی ہو، افغانستان کی گھمبیر صورتحال ہو، داعش کی تشکیل کے ذریعہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہو یا پھر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہو، شہید حاج قاسم وہاں ایک جنگی ماہر، درد مند اسلامی رہنما، کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور نجات دہندہ کے طور پر نظر آتے ہیں۔ فلسطین، مشرقِ وسطی کا سب سے اہم ایشو ہے۔ فلسطینی مقاومت و مجاہدت کی حمایت اور پیش رفت کے حوالہ سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے میں جو کردار شہید حاج قاسم نے ادا کیا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ سن ۲۰۰۶ کی جنگ میں لبنان فرنٹ لائن تھا جہاں حزب اللہ اور دیگر مقاومتی قوتوں کے ذریعہ لبنان کی سرزمین کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، لیکن شہید قاسم سلیمانی نے لبنان کی عوام کو اس بربریت سے نجات دلائی اور اتنا طاقتور بنا دیا کہ اسرائیلی، لبنان کی حکومت کی بجائے حزب اللہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ تاریخ نے لکھا کہ ایک ملک میں منتخب حکومت ہونے کے باوجود وہاں کے منظم گروہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ قومی حمیت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل جیسی خوفناک قوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے حوالہ سے شاید دنیا کو بہت سے حقائق کا علم نہیں۔ وہ کوئی افسانوی کردار نہیں، البتہ انہیں کسی ناول کے ایمان دار، بے خوف اور بہادر ہیرو کی حقیقی شکل ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ مردِ مجاہد کہ جس کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران عراق کے صدر جلال طالبانی کے ساتھ شہید حاج قاسم کی موجودگی کا سن کر امریکی صدر پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یعنی شہید حاج قاسم ایک طرف استکبار کے لیے خوف کی علامت تھے تو دوسری طرف مظلومین کے لئے شفقت و مہربانی کا مظہر۔ انسانی صفات و رشتوں کا بہترین مجموعہ اور عالمی استکبار کے مقابل کھڑا ہونے اور ان سے نبرد آزما ہونے کا ماہر، اگر ان سب کو ایک ہی جگہ تلاش کرنا چاہیں تو وہ شہید حاج قاسم کی جامع ذات ہے۔ آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اگرچہ دشمنوں نے آپ کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا لیکن آپ کی شہادت نے ایرانی، عراقی، شامی، لبنانی، یمنی، فلسطینی، بحرینی، حجازی، پاکستانی اور افغان عوام کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر جدوجہد اور استعمار ستیزی کے جذبہ کو مزید فروغ دیا۔ شہید حاج قاسم کی شہادت ناقابل فراموش اور ظاہری جدائی تکلیف دہ ہے لیکن ان کی شخصیت تمام مظلوم انسانوں کو تاریکی سے نکالنے اور معاشرتی ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، اپنی ذات میں جامع شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر غور و فکر، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو پتہ چلنا چاہیے کہ آلِ محمؐد کی تعلیمات پر عمل کے نتیجہ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی جیسے مجاہدین جنم لیتے ہیں جو دنیا کی تمام ظالم اور سرکش حکومتوں اور طاقتوں کو ذلیل و خوار کرنے کے بعد عوام کو ان کے سامنے کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہید حاج قاسم اس حوالہ سے انسانی معاشرہ کے عظیم ہیرو ہیں۔
آپ کا تبصرہ